کتنا کوئی آن پکارے، کتنا سر ٹکرائے
آئینے کے اندر ہے جو، باہر کیسے آئے
رفتہ، موجودہ، آئندہ کی تقسیم سے باہر
ایک زمانہ تیرا میرے اندر چلتا جائے
شاید پیچھے آنے والے ہم سے بہتر دیکھیں
میرے پنجرے میں آؤ تو میں تم کو سنواؤں
ایک پرندہ ایک ہی نغمہ ساتوں سُر میں گائے
تُو ہے دن کا بھیڑ بھڑکّا، میں شب کی خاموشی
تیرا سارا شور شرابا مجھ میں آن سمائے
کھوج رہی ہیں سب کی آنکھیں مجھ میں غیر کی دستک
میں تو اپنی ہی آواز پہ کھڑکی کھولوں مائے
جانے کس کے لب سے پھوٹے کس دم ہُو کا نعرہ
ہر دل اندر ایک قلندر بیٹھا سیس نوائے
تُو اس کو میری آنکھوں کی غداری مت کہنا
ہونہی بس کچھ بھاپ اڑی اور کچھ تارے دھندلائے
حمیدہ شاہین
No comments:
Post a Comment