Thursday 28 December 2017

اک پل کہیں رکے تھے سفر یاد آ گیا

اک پل کہیں رکے تھے سفر یاد آ گیا 
پھولوں کو ہنستا دیکھ کے گھر یاد آ گیا 
تتلی کے ساتھ آئی تِری یاد بھی ہمیں 
رکھا ہوا کتاب میں پر یاد آ گیا 
بیٹھے تھے جس کی چھاؤں میں ہم دونوں مدتوں 
کیا جانے آج کیوں وہ شجر یاد آ گیا 
سرحد سے کوئی آیا ہے پھر خون مانگنے 
اک ماں کو اپنا لختِ جگر یاد آ گیا 
پھینکا تھا میں نے طنز کا پتھر کسی کی سمت 
غالبؔ کی طرح اپنا ہی سر یاد آ گیا 

فاروق بخشی

No comments:

Post a Comment