اک پل کہیں رکے تھے سفر یاد آ گیا
پھولوں کو ہنستا دیکھ کے گھر یاد آ گیا
تتلی کے ساتھ آئی تِری یاد بھی ہمیں
رکھا ہوا کتاب میں پر یاد آ گیا
بیٹھے تھے جس کی چھاؤں میں ہم دونوں مدتوں
سرحد سے کوئی آیا ہے پھر خون مانگنے
اک ماں کو اپنا لختِ جگر یاد آ گیا
پھینکا تھا میں نے طنز کا پتھر کسی کی سمت
غالبؔ کی طرح اپنا ہی سر یاد آ گیا
فاروق بخشی
No comments:
Post a Comment