Tuesday, 5 December 2017

دن ڈھلا شام ہوئی پھول کہیں لہرائے

دن ڈھلا شام ہوئی پھول کہیں لہرائے 
سانپ یادوں کے مہکتے ہوئے ڈسنے آئے 
وہ کڑی دھوپ کے دن وہ تپش راہ وفا 
وہ سواد شب گیسو کے گھنیرے سائے 
دولت طبع سخن گو ہے امانت اس کی 
جب تِری چشم سخن ساز طلب فرمائے 
جستجوئے غم دوراں کو خِرد نکلی تھی 
کہ جنوں نے غم جاناں کے خزینے پائے 
سب مجھے مشورۂ ترک وفا دیتے ہیں 
ان کا ایما بھی ہو شامل تو مزہ آ جائے 
کیا کہوں دل نے کہاں سینت کے رکھا ہے اسے 
نہ کبھی بھولنے پاؤں نہ مجھے یاد آئے 
میں نے حافظ کی طرح طے یہ کیا ہے عابدؔ 
بعد ازیں مے نہ خورم بے کف بزم آرائے

عابد علی عابد

No comments:

Post a Comment