حسابِ عمر کا ہندسہ بدلنے
دسمبر آ گیا پھر سن نگلنے
انگیٹھی، گرم کافی، اور کمبل
لگی ٹھٹھری ہوئی یادیں پگھلنے
نکل جاتا ہوں بچ کر الجھنوں سے
ہوائے سرد قاتل قمریوں کی
لگا گلشن میں گل کا دم نکلنے
مِری نے اوڑھ لی برّاق چادر
چلو اب برف زاروں پر پھسلنے
دسمبر، جنوری اور فروری میں
چھپا چندا، لگا سورج سسکنے
زَمِستاں الوداع!،، آؤ بہارو
مچلتی خواہشوں کی گود بھرنے
امر روحانی
No comments:
Post a Comment