میں خواب اپنے سارے نیلام کر رہا ہوں
اور یہ بھی جان لو کہ بے دام کر رہا ہوں
اس سے غرض نہیں ہے بولی لگے گی کیسے
جو کام کرنا ہے، بس وہ کام کر رہا ہوں
وہ سب کہانیاں جو پوری نہیں ہوئی تھیں
تھک ہار سا گیا تھا میں راہ چلتے چلتے
سایہ جو مل گیا ہے، آرام کر رہا ہوں
سیرِ جہاں کی فرصت ملتی کہاں ہے مجھ کو
اب کیا بتاؤں تم کو، کیا کام کر رہا ہوں
عبید صدیقی
No comments:
Post a Comment