Monday, 11 December 2017

ہم ڈوب ڈوب خود میں تیراک ہو گئے ہیں

جب دیکھیے یہ رخنے نمناک ہو گئے ہیں
ہم ڈوب ڈوب خود میں تیراک ہو گئے ہیں
مر مر کے جی رہے ہیں جی جی کے مر رہے ہیں
بیمار جامِ جم کے بے باک ہو گئے ہیں
نہ تم مِرے تلک ہو نہ دل ہے دسترس میں
دو دو جہاں زمیں کے افلاک ہو گئے ہیں
اک چومنے کے پیچھے اے سود خور ہم تو
گویا تمہاری ذاتی املاک ہو گئے ہیں
لے کر بلائے بد کا اسم اے ستم ظریفی
ہم با وضو نمازی ناپاک ہو گئے ہیں
اب ہو رہا ہے مشکل اس کے قریب جانا
گویا مِرے عدو بھی چالاک ہو گئے ہیں
تُو نے گلے لگا کر پھر کب جدا کیا ہے
یعنی بدن سے لپٹی پوشاک ہو گئے ہیں
اب چاشنی نہیں ہے اسلوبِ زندگی میں
تنہا سبھی مناظر غمناک ہو گئے ہیں

بابر رحمٰن شاہ

No comments:

Post a Comment