جب دیکھیے یہ رخنے نمناک ہو گئے ہیں
ہم ڈوب ڈوب خود میں تیراک ہو گئے ہیں
مر مر کے جی رہے ہیں جی جی کے مر رہے ہیں
بیمار جامِ جم کے بے باک ہو گئے ہیں
نہ تم مِرے تلک ہو نہ دل ہے دسترس میں
اک چومنے کے پیچھے اے سود خور ہم تو
گویا تمہاری ذاتی املاک ہو گئے ہیں
لے کر بلائے بد کا اسم اے ستم ظریفی
ہم با وضو نمازی ناپاک ہو گئے ہیں
اب ہو رہا ہے مشکل اس کے قریب جانا
گویا مِرے عدو بھی چالاک ہو گئے ہیں
تُو نے گلے لگا کر پھر کب جدا کیا ہے
یعنی بدن سے لپٹی پوشاک ہو گئے ہیں
اب چاشنی نہیں ہے اسلوبِ زندگی میں
تنہا سبھی مناظر غمناک ہو گئے ہیں
بابر رحمٰن شاہ
No comments:
Post a Comment