کیسے سینے سے لگائے وہ سہارا کیا دے
ریت ہی ریت ہے لہروں کو کنارا کیا دے
رنگ پھولوں کے اترتے ہیں کھلی آنکھوں میں
بند ہے آنکھ تِری تجھ کو نظارا کیا دے
کوئی سورج تو نہیں بھر دے جو دامن اس کا
پت جھڑیں نشوونما پانے لگی ہیں دل میں
اب گلابوں کو جنم خون ہمارا کیا دے
کوئی خورشید ہی سینے سے لگائے آ کر
برف کے ایک سمندر کو شرارا کیا دے
وہ ستارہ ہے ستاروں سے ہے یاری اس کی
تم ہو گم نام حوالہ وہ تمہارا کیا دے
تو ہے بے چین سمندر کا مسافر خاورؔ
ساحلوں جیسا سکوں تجھ کو یہ پارہ کیا دے
خاقان خاور
No comments:
Post a Comment