Thursday 7 December 2017

کیسے سینے سے لگائے وہ سہارا کیا دے

کیسے سینے سے لگائے وہ سہارا کیا دے
ریت ہی ریت ہے لہروں کو کنارا کیا دے
رنگ پھولوں کے اترتے ہیں کھلی آنکھوں میں
بند ہے آنکھ تِری تجھ کو نظارا کیا دے
کوئی سورج تو نہیں بھر دے جو دامن اس کا
چاند کو پورا کرے کیسے ستارا کیا دے
پت جھڑیں نشوونما پانے لگی ہیں دل میں
اب گلابوں کو جنم خون ہمارا کیا دے
کوئی خورشید ہی سینے سے لگائے آ کر
برف کے ایک سمندر کو شرارا کیا دے
وہ ستارہ ہے ستاروں سے ہے یاری اس کی
تم ہو گم نام حوالہ وہ تمہارا کیا دے
تو ہے بے چین سمندر کا مسافر خاورؔ
ساحلوں جیسا سکوں تجھ کو یہ پارہ کیا دے

خاقان خاور

No comments:

Post a Comment