یہ شہر رفیقاں ہے دلِ زار سنبھل کے
ملتے ہیں یہاں لوگ بہت روپ بدل کے
عارض ہیں کہ مرجھائے ہوئے پھول کنول کے
آنکھیں ہیں کہ جھلسے ہوئے خوابوں کے محل کے
چہرے ہیں کہ مرجھائے ہوئے پھول کنول کے
چہرہ ہے کہ ہے آئینۂ گردش دوراں
شہکار ہیں کیا کیا مِرے نقاشِ ازل کے
فرہاد سرِ دار ہے، شیریں سرِ بازار
بدلے نہیں اب تک مگر انداز غزل کے
آۓ ہیں غمِ عشق میں ایسے بھی مقامات
دل خون ہوا آنکھ سے آنسو بھی نہ ڈھلکے
دنیا بھی اک آماجگہِ حسن ہے شاعرؔ
دیکھو تو ذرا حجلۂ جاناں سے نکل کے
حمایت علی شاعر
No comments:
Post a Comment