دل سے ہارا زمانے سے بھی رہ گیا
وہ کہیں جانے سے سے بھی رہ گیا
کر نہ پایا سفر دور کے چاند تک
اور پرندہ ٹھکانے سے بھی رہ گیا
خواب تھا دوسروں کا سہارا بنوں
زندگی بھر کے آرام کی فکر میں
ایک دو پل کمانے سے بھی رہ گیا
رونا آتا ہے ہم کو یہ سن کر شہاب
اب تُو ہنسنے ہسانے سے بھی رہ گیا
شہاب صفدر
No comments:
Post a Comment