Sunday, 2 August 2020

دل سے ہارا زمانے سے بھی رہ گیا

دل سے ہارا زمانے سے بھی رہ گیا
وہ کہیں جانے سے سے بھی رہ گیا
کر نہ پایا سفر دور کے چاند تک
اور پرندہ ٹھکانے سے بھی رہ گیا
خواب تھا دوسروں کا سہارا بنوں
بوجھ اپنا اٹھانے سے بھی رہ گیا
زندگی بھر کے آرام کی فکر میں
ایک دو پل کمانے سے بھی رہ گیا
رونا آتا ہے ہم کو یہ سن کر شہاب
اب تُو ہنسنے ہسانے سے بھی رہ گیا

شہاب صفدر

No comments:

Post a Comment