Sunday, 2 August 2020

کہیں سے ٹوٹ گیا ہے وہ سلسلہ مری جاں

کہیں سے ٹوٹ گیا ہے وہ سلسلہ مِری جاں
ہمارے بیچ تو کچھ بھی نہیں رہا مری جاں
شکستِ زعمِ تعلق کے بعد بھی دل میں
جہاں پہ تُو تھا وہاں پر ہے اک خلا مری جاں
ابھی زبان پہ ہے تیری گفتگو کا لمس
ابھی تو ہاتھ میں ہے تیرا ذائقہ مری جاں
تجھے میں کیسے بتاؤں کہ تُو ہے میرے لیے
مِری ہتھیلی پہ رکھی ہوئی دعا مری جاں

افتخار مغل

No comments:

Post a Comment