کہیں سے ٹوٹ گیا ہے وہ سلسلہ مِری جاں
ہمارے بیچ تو کچھ بھی نہیں رہا مری جاں
شکستِ زعمِ تعلق کے بعد بھی دل میں
جہاں پہ تُو تھا وہاں پر ہے اک خلا مری جاں
ابھی زبان پہ ہے تیری گفتگو کا لمس
تجھے میں کیسے بتاؤں کہ تُو ہے میرے لیے
مِری ہتھیلی پہ رکھی ہوئی دعا مری جاں
افتخار مغل
No comments:
Post a Comment