Sunday, 2 August 2020

وہی ہے عمر محبت کی جو پڑھائی کی ہے

یہ کچھ دنوں کی نہیں بات اک دہائی کی ہے
بڑی طویل کتھا اس سے آشنائی کی ہے
یہ لڑکیوں کے جواں قہقہے، یہ گیت، یہ شعر
انہی نواؤں سے برکت نوا سرائی کی ہے
اس عہدِ مرگِ محبت کا المیہ یہ ہے
وہی ہے عمر محبت کی جو پڑھائی کی ہے
مجھے ٹک اپنی دعا دیجو میر صاحب جی
مِرے بھی سر میں ہوا عشق و آشنائی کی ہے
وہ یوں بھی قہر ہے اپنی اداؤں میں، اور پھر
ستم ظریف کو عادت بھی خود ستائی کی ہے
یہ ایک شام نہیں کٹ رہی کسی صورت
ابھی تو عمر ہے اور عمر بھی جدائی کی ہے
کہاں چھپائے گا تو افتخار اپنوں سے
جو تیری روح میں خوشبو کسی پرائی کی ہے

افتخار مغل

No comments:

Post a Comment