یہ کچھ دنوں کی نہیں بات اک دہائی کی ہے
بڑی طویل کتھا اس سے آشنائی کی ہے
یہ لڑکیوں کے جواں قہقہے، یہ گیت، یہ شعر
انہی نواؤں سے برکت نوا سرائی کی ہے
اس عہدِ مرگِ محبت کا المیہ یہ ہے
مجھے ٹک اپنی دعا دیجو میر صاحب جی
مِرے بھی سر میں ہوا عشق و آشنائی کی ہے
وہ یوں بھی قہر ہے اپنی اداؤں میں، اور پھر
ستم ظریف کو عادت بھی خود ستائی کی ہے
یہ ایک شام نہیں کٹ رہی کسی صورت
ابھی تو عمر ہے اور عمر بھی جدائی کی ہے
کہاں چھپائے گا تو افتخار اپنوں سے
جو تیری روح میں خوشبو کسی پرائی کی ہے
افتخار مغل
No comments:
Post a Comment