ظلمتِ دہر کا احسان اتارا جائے
چاند سے کوئی فلک زاد پکارا جائے
چوم کر ماں کے قدم اور دعائیں لے کر
گھر سے نکلوں تو مِرے ساتھ ستارا جائے
فرقت و ہجر ہے کیا، دشتِ جدائی کیا ہے
پھر کہیں بیٹھ کے پی جائے اکٹھے چائے
پھر کوئی شام کا پل ساتھ گزارا جائے
تم پہ مرتا ہے کوئی شخص تمہارے جیسا
کیوں نہ اس شخص کی خاطر تمہیں ہارا جائے
اس کم آمیز کے وعدوں پہ بھروسہ کر کے
ڈر ہے پھر سے دلِ خوش فہم نہ مارا جائے
کیسے تنکے کے سہارے کو سہارا سمجھوں
اس سہارے سے تو اچھا ہے سہارا جائے
یہ چراغوں کو بجھانے کی گھڑی ہے ایماں
جس نے اب چھوڑ کے جانا ہے خدارا جائے
ایمان قیصرانی
No comments:
Post a Comment