ہنسنے رونے سے گئے، ربط بڑھانے سے گئے
ایسی افتاد پڑی سارے زمانے سے گئے
وہ تعفن ہے کہ اس بار زمیں کے باسی
اپنے سجدوں سے گئے، رزق کمانے سے گئے
دل تو پہلے ہی جدا تھے یہاں بستی والو
اس قدر قحطِ وفا ہے مِرے اطراف میں اب
یار یاروں کو بھی احوال سنانے سے گئے
زخم اتنے تھے کہ ممکن ہی نہ تھا ان کا شمار
پھر بھی اے دوست! تِرے ہاتھ لگانے سے گئے
اپنی قامت میں فلک بوس تھے ہم لوگ، مگر
اک زمیں زاد کے آواز لگانے سے گئے
اپنا یہ حال، کہ ہیں جان بچانے میں مگن
اور اجداد جو تھے، جان لڑانے سے گئے
تجھ کو کیا علم کہ ہم تیری محبت کے طفیل
ساری دنیا سے کٹے، سارے زمانے سے گئے
اصل مقصود تو بس تجھ سے ملاقات ہی تھا
ہم تِرے شہر مگر "اور" بہانے سے گئے
ایمان قیصرانی
No comments:
Post a Comment