روداد مجھ سے دل کی سنائی نہیں گئی
اس واسطے رگوں سے دُہائی نہیں گئی
اک خواب تو اٹھا لیا میں نے چرا کے آنکھ
تعبیر اس کی مجھ سے اٹھائی نہیں گئی
گو ہجر پورے شہر کی چوکھٹ سے اٹھ گیا
پتھر بنا ہوا تھا میں اپنے "وجود" میں
دریا سے میری "لاش" اٹھائی نہیں گئی
پشتے میں باندھتا رہا اپنے "وجود" پر
لیکن مِرے بدن کی "کٹائی" نہیں گئی
اتنا ہی فرق ہے مِرے اور قیس میں حضور
بس مجھ سے اپنی خاک اڑائی نہیں گئی
چہرے پہ گرچہ تُو نے تغافل سجا لیا
آنکھوں سے دل کی بات چھپائی نہیں گئی
اس بے وفا سے ترکِ تعلق تو کر لیا
تصویر اس کی مجھ سے جلائی نہیں گئی
احمد ساقی
No comments:
Post a Comment