نہ کوئی چھاؤں ہے اس کی نہ ثمر لگتا ہے
اس شجر پر کسی سائے کا اثر لگتا ہے
خواب اور سانس تو آئینہ صفت ہوتے ہیں
یہ کہیں ٹوٹ نہ جائیں مجھے ڈر لگتا ہے
کچھ بھی یاں مفت میسر نہیں دنیا ہے میاں
اُدھڑی اُدھڑ ی ہے مِری کھال نزاری ہے بدن
یہ تو ہجرت کا مجھے رختِ سفر لگتا ہے
ایسی دیوار سے کب تک کوئی سر کو پھوڑ ے
جس میں کھڑکی، نہ دریچہ، نہ ہی در لگتا ہے
کس قدر پست مکینوں کی ہے بستی احمد
میں جو اٹھتا ہوں تو چھت سے مِرا سر لگتا ہے
احمد ساقی
No comments:
Post a Comment