Sunday, 2 August 2020

نہ کوئی چھاؤں ہے اس کی نہ ثمر لگتا ہے

نہ کوئی چھاؤں ہے اس کی نہ ثمر لگتا ہے
اس شجر پر کسی سائے کا اثر لگتا ہے
خواب اور سانس تو آئینہ صفت ہوتے ہیں
یہ کہیں ٹوٹ نہ جائیں مجھے ڈر لگتا ہے
کچھ بھی یاں مفت میسر نہیں دنیا ہے میاں
اب تو عزت کو کمانے پہ بھی زر لگتا ہے
اُدھڑی اُدھڑ ی ہے مِری کھال نزاری ہے بدن
یہ تو ہجرت کا مجھے رختِ سفر لگتا ہے
ایسی دیوار سے کب تک کوئی سر کو پھوڑ ے
جس میں کھڑکی، نہ دریچہ، نہ ہی در لگتا ہے
کس قدر پست مکینوں کی ہے بستی احمد
میں جو اٹھتا ہوں تو چھت سے مِرا سر لگتا ہے

احمد ساقی

No comments:

Post a Comment