جس طرح روح کی تعبیر نہیں ہو سکتی
جذبۂ عشق کی تفسیر نہیں ہو سکتی
بجھتی آنکھوں نے لجاجت سے اجل سے پوچھا
مہرباں! تھوڑی سی تاخیر نہیں ہو سکتی؟
کتنے سفاک خد و خال نظر آتے ہیں
ہم نے طبقوں میں خود انسان کو تقسیم کیا
دستِ قدرت کی یہ تحریر نہیں ہو سکتی
یہ غلامی تو مِری ذات کے اندر ہے کہیں
اس کا باعث کوئی زنجیر نہیں ہو سکتی
اس عمارت کو زمیں بوس ہی کرنا ہو گا
ورنہ اس پر نئی تعمیر نہیں ہو سکتی
دل کو چھو کر جو زباں پر نہیں آتے احمد
ایسے الفاظ میں تاثیر نہیں ہو سکتی
احمد ساقی
No comments:
Post a Comment