Sunday, 2 August 2020

جذبۂ عشق کی تفسیر نہیں ہو سکتی

جس طرح روح کی تعبیر نہیں ہو سکتی
جذبۂ عشق کی تفسیر نہیں ہو سکتی
بجھتی آنکھوں نے لجاجت سے اجل سے پوچھا
مہرباں! تھوڑی سی تاخیر نہیں ہو سکتی؟
کتنے سفاک خد و خال نظر آتے ہیں
ایسی انسان کی تصویر نہیں ہو سکتی
ہم نے طبقوں میں خود انسان کو تقسیم کیا
دستِ قدرت کی یہ تحریر نہیں ہو سکتی
یہ غلامی تو مِری ذات کے اندر ہے کہیں
اس کا باعث کوئی زنجیر نہیں ہو سکتی
اس عمارت کو زمیں بوس ہی کرنا ہو گا
ورنہ اس پر نئی تعمیر نہیں ہو سکتی
دل کو چھو کر جو زباں پر نہیں آتے احمد
ایسے الفاظ میں تاثیر نہیں ہو سکتی

احمد ساقی

No comments:

Post a Comment