یہ کیا پیمبری دے دی خدائے تنہائی
فراعنہ کی زمیں،۔ اور عصائے تنہائی
اُدھر دِیے سے دِیا جل رہا ہے وائے نصیب
اِدھر ہوا بھی نہیں، ہائے، ہائے تنہائی
مجھے تو حلقۂ یاراں میں بھی نظر آئی
وہ "اہتمامِ تماشا" کہ دیکھتے جاؤ
تمام "آئینہ" تھا اک "ادائے" تنہائی
دمشقِ عشق کا شہزادہ تھا سو جانبِ شام
میں فتح کر کے چلا کربلائے تنہائی
لیاقت علی عاصم
No comments:
Post a Comment