جسم پر طوق، نہ زنجیر کی گنجائش ہے
ہاں مگر سینے میں اک تیر کی گنجائش ہے
قتل گاہیں ہیں بہت دار و رسن ایک نہیں
مان لو، شہر میں تعمیر کی گنجائش ہے
دیکھتے ہی تجھے چپ ہو گئی محفل ساری
تیری مرضی کا سمندر تِری منشا کا سفر
کیا مِری ناؤ میں تقدیر کی گنجائش ہے
بس یہی سوچ کے مرنے نہ دیا خوابوں کو
زندگی ہے، ابھی تعبیر کی گنجائش ہے
ہے تو بھرپور بہت تیری نمائش گہِ کُن
اس میں لیکن تِری تصویر کی گنجائش ہے
یوں اکیلا مجھے سب چھوڑ گئے ہیں گویا
دشت میں ایک ہی رہگیر کی گنجائش ہے
ویسے اظہار و بیاں میں ہے مکمل ، عاصم
آپ کے شعر میں تاثیر کی گنجائش ہے
لیاقت علی عاصم
No comments:
Post a Comment