Monday, 3 August 2020

عجب گمان کے موسم سفر میں آئے تھے

عجب گمان کے موسم سفر میں آئے تھے
کہ میرے دشت میں تیری گلی کے سائے تھے
ملا جو پیار کی پوشاک پہن کر وہ شخص
تو پھر چراغ ہواؤں نے بھی جلائے تھے
ہمارا شہر اندھیروں کا اک جزیرہ تھا
تم آئے تو مہ و خورشید جگمگائے تھے
تِرے بدن کی مہک میرے ساتھ تھی جس میں
سفر کی دھوپ سے پہلے شجر کے سائے تھے
وہ جن ملا تھا تو بارش کی خواہشیں تھیں بہت
مگر ہمارے بدن دھوپ نے جلائے تھے

جاذب قریشی

No comments:

Post a Comment