عجب گمان کے موسم سفر میں آئے تھے
کہ میرے دشت میں تیری گلی کے سائے تھے
ملا جو پیار کی پوشاک پہن کر وہ شخص
تو پھر چراغ ہواؤں نے بھی جلائے تھے
ہمارا شہر اندھیروں کا اک جزیرہ تھا
تِرے بدن کی مہک میرے ساتھ تھی جس میں
سفر کی دھوپ سے پہلے شجر کے سائے تھے
وہ جن ملا تھا تو بارش کی خواہشیں تھیں بہت
مگر ہمارے بدن دھوپ نے جلائے تھے
جاذب قریشی
No comments:
Post a Comment