گھر کا چراغ
راستے بند ہیں
میرے گھر کے کواڑوں پہ پتھراؤ ہے
بام و در
بہرے گونگے اندھیروں سے مانوس ہیں
زرد پر چھائیوں کے بدن
زخم در زخم میرے ہی ملبوس ہیں
روزنوں سے مِری روشنی گھورتی ہے مجھے
کھڑکیوں کی سلاخوں کے پیچھے
نئی وحشتوں کی خبر ڈھونڈتی ہے مجھے
کوئی کہتا ہے مجھ سے
کتابوں کے سب حرف اڑ جائیں گے"
آسمان ٹوٹ کر
خود زمینوں سے جڑ جائیں گے
آگ میں عکس جلنے کو ہے
اور موسم بدلنے کو ہے
اس سے پہلے مگر
میر ے مقتول چہرے کو پہچان لو
"میرے گھر میں ہی میرا قاتل بھی ہے جان لو
جاذب قریشی
No comments:
Post a Comment