Monday, 3 August 2020

زیست کا اعتبار کون کرے

زیست کا، اعتبار کون کرے
بے وفاؤں سے پیار کون کرے
وعدہ ملنے کا حشر پر موقوف
ہائے، اب انتظار کون کرے
زندگی الجھنوں میں بٹ سی گئی
راستہ سازگار کون کرے
'وہ جو کہتے تھے 'ساتھ ہیں تیرے
ان پہ اب اعتبار کون کرے
رات کی سیاہی ہے حیات اپنی
روشنی کا مینار کون کرے
بزمی غم کی عجب کہانی ہے
غم کو اب غمگسار کون کرے

عرفان بزمی

No comments:

Post a Comment