سنو
بہت مصروف ہو تم بھی
مجھے بھی، سچ کہوں تو
بہت سے کام کرنے ہیں
ابھی تشکیک باقی ہے
مِری تحقیق باقی ہے
کئی غزلیں ادھوری ہیں
میں کھانا بھول جاتی ہوں
کتابوں کو الگ شکوہ
کہ بے ترتیب رہتی ہیں
مگر تم جانتے ہو نا
تمہاری یاد میں گم صم
میں پھروں بےعمل رہ کر
کئی سپنے سجاتی ہوں
تمہارے ہاتھ ہاتھوں میں
میں دھیرے سے دباتی ہوں
سنو! جو فرض ہیں میرے
توجہ سے نبھاتی ہوں
مگر یہ کیا؟
تمہاری یہ سرد مہری اور
بظاہر بے عمل رینا
کسی کو بھی نہیں بھاتا
گلے سب کے بجا، لیکن
فقط اس پہ ہی کیا موقوف ہے
تمہیں جب یاد کرتی ہوں
میں رب کو بھول جاتی ہوں
بس اب اتنی گزارش ہے
تمہیں گر چند لمحوں کی
فراغت ہو
تو کچھ کاموں کو بِن سوچے
نہ اتنے جو ضروری ہوں
انہیں تم کل پہ رکھ دینا
مِری خاطر چلے آنا
مِرا یہ بے عمل رہنا
تمہی موقوف کر جاؤ
مجھے مصروف کر جاؤ
پریا تابیتا
No comments:
Post a Comment