Thursday, 18 February 2021

خوف نے جب دستک کے لہجے پہنے تھے

 خوف نے جب دستک کے لہجے پہنے تھے

جانے کس نے کس کے جوتے پہنے تھے

جس دن سے اسکول کا رستہ دیکھا تھا

ماں نے خواب اور ہم نے بستے پہنے تھے

جن پر جنگل صاف دکھائی دیتا تھا

دیواروں نے ایسے پردے پہنے تھے

دھوپ کی شدت بے معنی سی لگتی تھی

سب لوگوں نے کالے چشمے پہنے تھے

اس کے گھر کی خاص نشانی یاد آئی

پھولوں کے دیوار نے گہنے پہنے تھے

اس کو پاگل یا پھر میں درویش کہوں؟

جس نے قد سے لمبے کپڑے پہنے تھے

میں ہی تھا جو سردی میں بھی عریاں تھا

رستوں نے بھی جسم پہ پتے پہنے تھے


شعیب زمان

No comments:

Post a Comment