خوف نے جب دستک کے لہجے پہنے تھے
جانے کس نے کس کے جوتے پہنے تھے
جس دن سے اسکول کا رستہ دیکھا تھا
ماں نے خواب اور ہم نے بستے پہنے تھے
جن پر جنگل صاف دکھائی دیتا تھا
دیواروں نے ایسے پردے پہنے تھے
دھوپ کی شدت بے معنی سی لگتی تھی
سب لوگوں نے کالے چشمے پہنے تھے
اس کے گھر کی خاص نشانی یاد آئی
پھولوں کے دیوار نے گہنے پہنے تھے
اس کو پاگل یا پھر میں درویش کہوں؟
جس نے قد سے لمبے کپڑے پہنے تھے
میں ہی تھا جو سردی میں بھی عریاں تھا
رستوں نے بھی جسم پہ پتے پہنے تھے
شعیب زمان
No comments:
Post a Comment