کہیں نہ تھا وہ دریا جس کا ساحل تھا میں
آنکھ کھلی تو اک صحرا کے مقابل تھا میں
حاصل کر کے تجھ کو اب شرمندہ سا ہوں
تھا اک وقت کہ سچ مچ تیرے قابل تھا میں
کس احساس جرم کی سب کرتے ہیں توقع
اک کردار کیا تھا جس میں قاتل تھا میں
کون تھا وہ جس نے یہ حال کیا ہے میرا
کس کو اتنی آسانی سے حاصل تھا میں
ساری توجہ دشمن پر مرکوز تھی میری
اپنی طرف سے تو بالکل ہی غافل تھا میں
جن پر میں تھوڑا سا بھی آسان ہوا ہوں
وہی بتا سکتے ہیں کتنا مشکل تھا میں
نیند نہیں آتی تھی سازش کے دھڑکے میں
فاتح ہو کر بھی کس درجہ بزدل تھا میں
گھر میں خود کو قید تو میں نے آج کیا ہے
تب بھی تنہا تھا جب محفل محفل تھا میں
شارق کیفی
No comments:
Post a Comment