Saturday, 27 February 2021

کہیں نہ تھا وہ دریا جس کا ساحل تھا میں

 کہیں نہ تھا وہ دریا جس کا ساحل تھا میں

آنکھ کھلی تو اک صحرا کے مقابل تھا میں

حاصل کر کے تجھ کو اب شرمندہ سا ہوں

تھا اک وقت کہ سچ مچ تیرے قابل تھا میں

کس احساس جرم کی سب کرتے ہیں توقع

اک کردار کیا تھا جس میں قاتل تھا میں

کون تھا وہ جس نے یہ حال کیا ہے میرا

کس کو اتنی آسانی سے حاصل تھا میں

ساری توجہ دشمن پر مرکوز تھی میری

اپنی طرف سے تو بالکل ہی غافل تھا میں

جن پر میں تھوڑا سا بھی آسان ہوا ہوں

وہی بتا سکتے ہیں کتنا مشکل تھا میں

نیند نہیں آتی تھی سازش کے دھڑکے میں

فاتح ہو کر بھی کس درجہ بزدل تھا میں

گھر میں خود کو قید تو میں نے آج کیا ہے

تب بھی تنہا تھا جب محفل محفل تھا میں


شارق کیفی

No comments:

Post a Comment