Friday 26 February 2021

تمام عمر گزاری ہے خیر میں نے بھی

 تمام عمر گزاری ہے خیر میں نے بھی

کبھی نہ لگنے دئیے اپنے پیر میں نے بھی

تمہارے غیر سمجھنے کی دیر تھی، پھر کیا

خود اپنے آپ کو سمجھا ہے غیر میں نے بھی

بس اپنے حلقۂ احباب کی حمایت میں

پھر اپنے ساتھ کمایا ہے بَیر میں نے بھی

وہ گُل بدن بھی تو اب باغ میں نہیں آتا

اسی لیے تو یہ چھوڑی ہے سیر میں نے بھی

سجا کے رکھا ہے دل میں بڑے قرینے سے

تمہاری یاد کو یادش بخیر میں نے بھی

وہی جو کام کیا کوہ کَن نے تیشے سے

کیا ہے کام وہ تیشے بغیر میں نے بھی


مسعود احمد اوکاڑوی

No comments:

Post a Comment