Friday 26 February 2021

ماں تجھ سے بچھڑ کے اب تک سویا نہیں ہوں

 ماں کی یاد میں کہی گئی ایک نظم


ماں

تجھ سے بچھڑ کے اب تک سویا نہیں ہوں

میں اب تک رویا نہیں ہوں

مجھے اپنی بانہوں میں لے لو

میرے ماتھے پر محبت ثبت کر دو

چاہت لوری کا رس کانوں میں گھول دو

زیست کی تلخیوں کو امرت میں بدل دو

تیری چھاتی سے مانوس ہوں میں

تیرا دودھ پی کر ہی بڑا ہوا ہوں میں

عرصہ ہوا ہے تیرے زانوں پہ سر رکھے ہوئے

بھولا نہیں ہوں مخروطی انگلیوں کا لمس اپنے ماتھے پہ

یادوں کے آسمان سے ٹپکتے آنسو

پلکیں بوجھل کر گئے

جھپکنے سے ٹپکنے لگے

اے ماں، اے ماں، اے ماں

اٹھ کر گلے لگا لو مجھ کو

تجھ سے بچھڑ کے اب تک سویا نہیں ہوں

میں اب تک رویا نہیں ہوں


وسیم بدایونی

No comments:

Post a Comment