ماں کی یاد میں کہی گئی ایک نظم
ماں
تجھ سے بچھڑ کے اب تک سویا نہیں ہوں
میں اب تک رویا نہیں ہوں
مجھے اپنی بانہوں میں لے لو
میرے ماتھے پر محبت ثبت کر دو
چاہت لوری کا رس کانوں میں گھول دو
زیست کی تلخیوں کو امرت میں بدل دو
تیری چھاتی سے مانوس ہوں میں
تیرا دودھ پی کر ہی بڑا ہوا ہوں میں
عرصہ ہوا ہے تیرے زانوں پہ سر رکھے ہوئے
بھولا نہیں ہوں مخروطی انگلیوں کا لمس اپنے ماتھے پہ
یادوں کے آسمان سے ٹپکتے آنسو
پلکیں بوجھل کر گئے
جھپکنے سے ٹپکنے لگے
اے ماں، اے ماں، اے ماں
اٹھ کر گلے لگا لو مجھ کو
تجھ سے بچھڑ کے اب تک سویا نہیں ہوں
میں اب تک رویا نہیں ہوں
وسیم بدایونی
No comments:
Post a Comment