Sunday, 28 February 2021

سوچ کر بھی کیا جانا جان کر بھی کیا پایا

 سوچ کر بھی کیا جانا جان کر بھی کیا پایا 

جب بھی آئینہ دیکھا خود کو دوسرا پایا 

ہونٹ پر دِیا رکھنا دل جلوں کی شوخی ہے 

ورنہ اس اندھیرے میں کون مسکرا پایا

بول تھے دِوانوں کے جن سے ہوش والوں نے

سوچ کے دھندلکوں میں، اپنا راستہ پایا

 اہتمام دستک کا اپنی وضع تھی ورنہ 

ہم نے در رسائی کا بارہا کھلا پایا 

اہتمام دستک کا اپنی وضع تھی ورنہ 

ہم نے در رسائی کا بارہا کھلا پایا 

فلسفوں کے دھاگوں سے کھینچ کر سرا دل کا 

وہم سے حقیقت تک ہم نے سلسلہ پایا

عمر یا زمانے کا کھیل ہے بہانے کا

سب نے ماجرا دیکھا کس نے مدعا پایا

شاعری طلب اپنی شاعری عطا اس کی 

حوصلے سے کم مانگا ظرف سے سوا پایا

سازؔ جب کھلا ہم پر شعر کوئی غالب کا 

ہم نے گویا باطن کا اک سراغ سا پایا


عبدالاحد ساز

No comments:

Post a Comment