Sunday, 28 February 2021

آتش غم سے بتائیں کیا کہ کیا کیا جل گیا

آتشِ غم سے بتائیں کیا کہ کیا کیا جل گیا

دل ہمارا جل گیا، پھر جسم سارا جل گیا

اک نظر اس نے بھری محفل میں جو دیکھا مجھے

دیکھ کر ہر اک تماشائی تماشا جل گیا

بے خودی میں بوسہ انگاروں ‌کا ہم نے لے لیا

گرمئ رخسار سے یوں منہ ہمارا جل گیا

ہو گئے جذبِ محبت میں یہ جب آتش فشاں

باغ لیلیٰ سے جلا، مجنوں‌ سے صحرا جل گیا

برق پہلے تو نشیمن پر گری، اہلِ چمن

پھر خس و خاشاک سے گلشن ہی سارا جل گیا

آج یہ کس راگ میں‌ گائی مِری اس نے غزل

آگ پانی میں لگی ایسی کہ دریا جل گیا​


متین امروہوی

No comments:

Post a Comment