Sunday, 28 February 2021

قبائے گرد ہوں آتا ہے یہ خیال مجھے

قبائے گرد ہوں آتا ہے یہ خیال مجھے

چلے ہوا تو کہوں کس سے میں سنبھال مجھے

سکوتِ مرگ کے گنبد میں اک صدا بن کے

کبھی حصار‌‌ِ غمِ زیست سے نکال مجھے

کوئی بھی راہ کا پتھر نظر نہیں آتا

میں دیکھتا ہوں اسے حیرت سوال مجھے

مِرے وجود میں اک کرب بن کے بکھرا ہے

یہ میرا دل کہ ہوا باعثِ وبال مجھے

ہوں زیرِ سنگِ رواں آب کی طرح حامد

نمود دے گا مِری فکر کا ابال مجھے


حامد جیلانی

No comments:

Post a Comment