Sunday, 28 February 2021

اس مصرعۂ بے جوڑ کا ثانی کہاں سے لاؤں

 اس مصرعۂ بے جوڑ کا ثانی کہاں سے لاؤں

اب تیری طرح دشمنِ جانی کہاں سے لاؤں

کب تک رہے گی بند کھلونوں کی وہ  دُکاں

بچوں کے لیے روز کہانی کہاں سے لاؤں

سب پوچھتے ہیں دل سے ہی اب دھڑکنوں کا راز

اب دھڑکنوں کی کوئی نشانی کہاں سے لاؤں

جب جھک گئی کمر تو اٹھی حسرتِ نگاہ

ابرِ سفید کے لیے پانی کہاں سے لاؤں

جو دیکھتے ہیں حال پہ  ہوتا ہے منعکس

تیرے لیے اب آنکھ پرانی کہاں سے لاؤں


کلیم حاذق

No comments:

Post a Comment