ولولے سو رہے ہیں سب مجھ میں
اب کہاں ہے وہ تاب و تب مجھ میں
مجھ کو دریا مثال کر مولا
کوئی رہتا ہے تشنہ لب مجھ میں
اپنے غم کا سبب بتاؤں کیا
غم تو رہتے ہیں بے سبب مجھ میں
کس قیامت کا شور ہوتا ہے
خامشی چیختی ہے جب مجھ میں
کیسے نکلوں حصارِِ ذات سے اب
بام و در منہدم ہیں سب مجھ میں
کرب اتنا ہے اب کہ میرا کرب
مسکراتا ہے زیرِِ لب مجھ میں
اپنی پہچان خود ہی عاصم ہے
تھا جو عاصم وہ گم ہے اب مجھ میں
عاصم صدیقی
No comments:
Post a Comment