Saturday 27 February 2021

کیا بات تھی کس واسطے روٹھا تھا مرا عکس

 کیا بات تھی کس واسطے روٹھا تھا مِرا عکس

اپنا تھا مگر غیر سا لگتا تھا مرا عکس

وہ دھوپ تھی سائے کے لیے ترس رہا تھا

پاؤں میں‌ پڑا میرے تڑپتا تھا مرا عکس

میں جل بھی چکا بجھ بھی چکا مٹ بھی چکا تھا

آنکھوں میں ‌مگر اُس کی چمکتا تھا مرا عکس

آئینے کے اندر سے مجھے جھانک رہا تھا

حالت کو مری دیکھ کے ہنستا تھا مرا عکس

ہر زخم مہک اٹھا تھا ہر ٹیس چبھن تھی

کس درد کے دکھ دھاگوں سے لپٹا تھا مرا عکس

اس پر بھی اثر غم کا نظر آتا ہے مجھ کو

فاروق مجھے دیکھ کے چپ سا ہے مرا عکس


زبیر فاروق

No comments:

Post a Comment