Friday, 26 February 2021

کب تک ہو وفادار یہ وعدہ نہیں لینا

 کب تک ہو وفادار، یہ وعدہ نہیں لینا

اک سانس مجھے تم سے زیادہ نہیں لینا

یہ جسم مکمل ہو تِری عشرہ گری سے

اوروں کی طرح میں نے یہ آدھا نہیں لینا

یلغار سے بڑھ کر ہے یہ زلفوں کی حراست

اس بات کو اب اتنا بھی سادہ نہیں لینا

میں چُور ہوں پہلے ہی محبت کے نشے میں

سینے پہ جدائی کا بُرادہ نہیں لینا

آنکھوں میں تمہیں رکھنا ہے سانسوں میں مِری جان

زخموں کو بیابان کشادہ نہیں لینا

اب قیس کے پیروں میں بھی تنہائی نہیں ہے

لیلیٰ نے بھی غصے کا لبادہ نہیں لینا

غم اس کا غلط کرنے کو مجھ عشق نے عامر

غالب کی طرح ساغر و بادہ نہیں لینا


عامر سہیل

No comments:

Post a Comment