اونے پونے میں زمانہ تھا خریدار میرا
اس لیے مندا رہا آج بھی بازار میرا
اک خوشی دوڑ رہی ہے میرے آگے آگے
پیچھا کرتا ہے کوئی خوف لگاتار میرا
میں نہ کچھوا ہوں نہ خرگوش حقیقت یہ ہے
اس کہانی میں نہیں کوئی بھی کردار میرا
جاؤں تو جاؤں کہاں موت کو جھانسا دے کر
پوچھنے آتی ہے یہ دن میں کئی بار میرا
سانس اجڑے ہوئے خیموں کی طرح اکھڑی تھی
راستہ روکتی کیسے کوئی دیوار میرا
مسعود احمد اوکاڑوی
No comments:
Post a Comment