گزر گئی شبِ ہجراں اگر تو کیا ہو گا
جو کھُل گیا یہ فریبِ نظر تو کیا ہو گا
درِِ قفس تو کھُلا ہے مگر یہ ڈر ہے مجھے
بکھر گئے کہیں سب بال و پر تو کیا ہو گا
وہ قتل کرتا ہے اور یہ تو سوچتا ہی نہیں
نکل کے آ گئے سب نوحہ گر تو کیا ہو گا
صنم تراشا ہے میں نے اندھیری آنکھوں سے
پلٹ کے آ گئی میری نظر تو کیا ہو گا
حصار کھینچ رہا ہے وہ اپنے چاروں طرف
اگر وہ گھِر گیا اپنے ہی گھر تو کیا ہو گا
یہی تو سوچ کے رختِ سفر ہی کھول دیا
ہُوا نہ گر وہ میرا ہمسفر تو کیا ہو گا
وہ عکس دیکھ کے آئینہ توڑ دیتا ہے
نظر میں رُک گئی تصویر گر تو کیا ہو گا
طاہرہ صفی
No comments:
Post a Comment