میں تِرے لطف کا حقدار نہیں ہو سکتا
پھر بھی خواہش سے تو انکار نہیں ہو سکتا
میاں دریائے محبت ہے میسر اس میں
گھڑا ہو سکتا ہے، پتوار نہیں ہو سکتا
تجھے قرطاس پہ لاؤں گا سحر کی صورت
صورتِ شب تو نمودار نہیں ہو سکتا
تُو سہولت سے فراموش مجھے کر دے گا
میں تِری یاد سے بے زار نہیں ہو سکتا
آئینے سے یہی تکرار کیے جاتا ہوں
میں تو اپنا بھی طرفدار نہیں ہو سکتا
آپ نے دیکھا ہے کیا خط کبھی ای سی جی کا
راستہ زیست کا ہموار نہیں ہو سکتا
میں ہوں اپنی ہی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا
پس معافی کا طلب گار نہیں ہو سکتا
عمیر قریشی
No comments:
Post a Comment