Saturday, 27 February 2021

خاک جینا ہے اگر موت سے ڈرنا ہے یہی

 خاک جینا ہے اگر موت سے ڈرنا ہے یہی

ہوس زیست ہو اس درجہ تو مرنا ہے یہی

قلزم عشق میں ہیں نفع و سلامت دونوں

اس میں ڈوبے بھی تو کیا پار اترنا ہے یہی

قیدِ گیسُو سے بھلا کون رہے گا آزاد

تیری زلفوں کا جو شانوں پہ بکھرنا ہے یہی

اے اجل تجھ سے بھی کیا خاک رہے گی امید

وعدہ کر کے جو تِرا روز مُکرنا ہے یہی

اور کس وضع کے جویا ہیں عروسانِ بہشت

ہیں کفن سرخ شہیدوں کا سنورنا ہے یہی

حد ہے پستی کی کہ پستی کو بلندی جانا

اب بھی احساس ہو اس کا تو ابھرنا ہے یہی

تجھ سے کیا صبح تلک ساتھ نبھے گا اے عمر

شب فرقت کی جو گھڑیوں کا گزرنا ہے یہی

ہو نہ مایوس کہ ہے فتح کی تقریب شکست

قلبِ مومن کا مِری جان نکھرنا ہے یہی

نقدِ جاں نذر کرو سوچتے کیا ہو جوہر

کام کرنے کا یہی ہے تمہیں کرنا ہے یہی


مولانا محمد علی جوہر

No comments:

Post a Comment