Thursday, 25 February 2021

ہم اگر سچ کے انہیں قصے سنانے لگ جائیں

 ہم اگر سچ کے انہیں قصے سنانے لگ جائیں

لوگ تو پھر ہمیں محفل سے اٹھانے لگ جائیں

یاد بھی آج نہیں ٹھیک طرح سے جو شخص

ہم اسے بھولنا چاہیں تو زمانے لگ جائیں

شام ہوتے ہی کوئی خوشبو دریچہ کھولے

اور پھر بیتے ہوئے لمحے ستانے لگ جائیں

خود چراغوں کو اندھیروں کی ضرورت ہے بہت

روشنی ہو تو انہیں لوگ بجھانے لگ جائیں

اک یہی سوچ بچھڑنے نہیں دیتی تجھ سے

ہم تجھے بعد میں پھر یاد نہ آنے لگ جائیں

ایک مدت سے یہ تنہائی میں جاگے ہوئے لوگ

خواب دیکھیں تو نیا شہر بسانے لگ جائیں


شبانہ یوسف

No comments:

Post a Comment