اٹھے جس بزم سے تم غم کا سماں چھوڑ آئے
دِیے محفل سے اٹھا لائے دھواں چھوڑ آئے
ایک ٹوٹا ہوا بے کار سفینہ ہم ہیں
ہمیں اب سیلِ بلا چاہے جہاں چھوڑ آئے
آج سر پھوٹے گا روئے گی نہ دیوار تیری
شہر سے دور ہمیں اہلِ جہاں چھوڑ آئے
ہنس کے جی بھر کے زمانے کہ جنوں ہار گیا
ناصحا! خوش ہو کہ ہم کوئے بتاں چھوڑ آئے
میرے ہاتھوں کی لکیریں تھیں وہ راہیں اے دوست
میرے ہاتھوں کو تِرے ہاتھ جہاں چھوڑ آئے
نہ چلا بعد ہمارے کوئی راہِ غم میں
جسے ہر گام پہ اک سنگ گراں چھوڑ آئے
دن بہاروں کے پلٹ آئے مؔصور لیکن
جانے اس جان بہاراں کو کہاں چھوڑ آئے
مصور سبزواری
No comments:
Post a Comment