قریب دل کے ہمیں وہ رباب لگتا ہے
اگرچہ دور سے مثلِ سراب لگتا ہے
میں اس کی ہمتوں کی داد ہی دئیے جاؤں
جو بند ہو کے بھی کھلتی کتاب لگتا ہے
خدا سے روز ہی مانگوں اسے دعاؤں میں
خیالِ وصل بھی جس سے ثواب لگتا ہے
بنوں اڑان ہی اس کے تخلیات کی میں
مجھے سوال بھی جس کا جواب لگتا ہے
زمین پر ہوں میں تنہا تمہارے بعد اگر
فلک پہ تنہا مجھے ماہتاب🌕 لگتا ہے
اکیلا وہ تھا جہاں میں، تو میں بھی تنہا تھی
اور اس سے ملنا بھی اب ایک خواب لگتا ہے
رباب اچھا تھا اک شخص ساری دنیا میں
اب اس کے بعد زمانہ خراب لگتا ہے
سعدیہ رباب
No comments:
Post a Comment