Saturday, 27 February 2021

عذاب آئے کچھ ایسے کہ ہم بکھر سے گئے

 عذاب آئے کچھ ایسے کہ ہم بکھر سے گئے

وہی اداس در و بام ہم جدھر سے گئے

نشاطِ محفلِ یاراں میں اس قدر الجھے

فرازِ علم و ہنر اپنی رہگزر سے گئے

خدا کو بھول گئے مشرکوں کی صحبت میں

نتیجہ دیکھا دعاؤں کے بھی ثمر سے گئے

بچھڑ کے اپنے مدارس سے درس گاہوں سے

جمود ایسا جہاں تھے وہیں ٹھہر سے گئے

نگاہ پڑتے ہی آقاﷺ تمہارے روضہ پر

دُکھی جو لوگ تھے وہ کس قدر نِکھر سے گئے

میں رو رہا تھا کھڑا قرطبہ کی مسجد میں

کہاں سے آئے تھے ہم کس طرح کدھر سے گئے

دیارِ غیر میں آنے کا یہ ثمر پایا

کہاں کے نام و نصب ہم تو اپنے گھر سے گئے

پڑھا ہے دل سے کلامِ ذکا کو جب طالب

شعورِ شعر و سخن پھر مِرے نکھر سے گئے​


اقبال طالب

No comments:

Post a Comment