Saturday, 27 February 2021

ہر ایک خواب سو گیا خیال جاگتے رہے

 ہر ایک خواب سو گیا خیال جاگتے رہے 

جواب پی لیے مگر سوال جاگتے رہے 

ہماری پتلیوں پہ خواب اپنا بوجھ رکھ گئے 

ہم ایک شب نہیں کہ ماہ و سال جاگتے رہے 

گزار کے وہ ہجرتیں عجیب زخم دے گئیں

ملے بھی اس کے بعد پر ملال جاگتے رہے

بس ایک بار یاد نے تمہارا ساتھ چھو لیا 

پھر اس کے بعد تو کئی جمال جاگتے رہے 

کمال بے کلی سہی عجیب رت جگے کئے 

ہمارے جسم نیند سے نڈھال جاگتے رہے 

کوئی جواز ڈھونڈتے خیال ہی نہیں رہا 

تمام عمر یونہی بے خیال جاگتے رہے


ثروت زہرا

No comments:

Post a Comment