منصف وقت سے بیگانہ گزرنا ہو گا
فیصلہ اپنا ہمیں آپ ہی کرنا ہو گا
زخم احساس کبھی چین نہ لینے دے گا
سرِ میدانِ تمنّا ہمیں مرنا ہو گا
تجھے چھُو کر بھی تجھے پا نہ سکیں گے تو ہمیں
صورتِ درد تِرے دل میں اترنا ہو گا
جانے لے آئی کہاں تیزئ رفتار ہمیں
کہ ٹھہر جائیں تو صدیوں کا ٹھہرنا ہو گا
عصرِ حاضر میں ہے جینا ہی جہادِ اکبر
جس کی خاطر ہمیں ہر شے سے گزرنا ہو گا
حشر سے کم نہ کسی دن کے جھمیلے ہوں گے
اک قیامت ہمیں ہر شب کا گزرنا ہو گا
روئیں کیا ڈوبتے سورج کے لیے ہم روحی
کہ نئی شان سے کل اس کو اُبھرنا ہو گا
روحی کنجاہی
No comments:
Post a Comment