کیوں چلتی زمیں رُکی ہوئی ہے
کیا میرے تئیں رکی ہوئی ہے
خوابوں سے اُداس ہو کے تعبیر
پلکوں کے قریں رکی ہوئی ہے
سائے کو روانہ کر دیا ہے
دیوار کہیں رکی ہوئی ہے
موسم کا لحاظ ہے ہَوا کو
یونہی تو نہیں رکی ہوئی ہے
میں آتے دنوں سے جا ملا ہوں
دنیا تو وہیں رکی ہوئی ہے
عابد ملک
No comments:
Post a Comment