ایک ہنگامہ شب و روز بپا رہتا ہے
خانۂ دل میں نہاں جیسے خدا رہتا ہے
میرے اندر ہی کوئی جنگ چھڑی ہے شاید
میرے اندر ہی کوئی دشتِ بلا رہتا ہے
جب بھی نزدیک سے محسوس کیا ہے خود کو
میں نے دیکھا ہے کوئی مجھ سے خفا رہتا ہے
ہم تو آباد جزیروں سے گزر جاتے ہیں
اور پھر دور تلک ایک خلا رہتا ہے
خامشی کا پس دیوار جنوں ہے سایہ
اس طرف سلسلۂ آہ و بکا رہتا ہے
معید رشیدی
No comments:
Post a Comment