بلا کی دھوپ تھی میں جل رہا تھا
بدن اس کا تھا، اور سایہ مرا تھا
خرابے میں تھا اک ایسا خرابہ
جہاں میں سب سے چھپ کے بیٹھتا تھا
بہت نزدیک تھے تصویر میں ہم
مگر وہ فاصلہ جو دِکھ رہا تھا
زمین و آسماں ساکت پڑے تھے
مِرے کمرے کا پنکھا چل رہا تھا
اسے بھی عشق کی عادت نہیں تھی
مِرا بھی پہلا پہلا تجربہ تھا
مجھے جب تک تلاشا روشنی نے
میں پورا تیرگی کا ہو چکا تھا
عین عرفان
No comments:
Post a Comment