وقت بھی اب مِرا مرہم نہیں ہونے پاتا
درد کیسا ہے جو مدھم نہیں ہونے پاتا
کیفیت کوئی ملے ہم نے سنبھالی ایسے
غم کبھی غم سے بھی مدغم نہیں ہونے پاتا
میرے الفاظ کے یہ ہاتھ بھی شل ہوں جیسے
ہو رہا ہے جو وہ ماتم نہیں ہونے پاتا
دل کے دریا نے کناروں سے محبت کر لی
تیز بہتا ہے مگر کم نہیں ہونے پاتا
اتنا مل لیتا ہے از راہ تکلف ہی سہی
کوئی موسم مِرا موسم نہیں ہونے پاتا
ثروت زہرا
No comments:
Post a Comment