Saturday 27 February 2021

تیرگی طاق میں جڑی ہوئی ہے

 تیرگی طاق میں جڑی ہوئی ہے

دھوپ دہلیز پر پڑی ہوئی ہے

دل پہ ناکامیوں کے ہیں پیوند

آس کی سوئی بھی گڑی ہوئی ہے

میرے جیسی ہے میری پرچھائیں

دھوپ میں پل کے یہ بڑی ہوئی ہے

گھیر رکھا ہے نارسائی نے

اور خواہش وہیں کھڑی ہوئی ہے

میں نے تصویر پھینک دی ہے مگر

کیل دیوار میں گڑی ہوئی ہے

ہارتا بھی نہیں غمِ دوراں

ضد پہ امید بھی اڑی ہوئی ہے

دل کسی کے خیال میں ہے گم

رات کو خواب کی پڑی ہوئی ہے


عمار اقبال

No comments:

Post a Comment