Friday, 26 February 2021

آسودگان ہجر سے ملنے کی چاہ میں

 آسودگانِ ہجر سے ملنے کی چاہ میں

کوئی فقیر بیٹھا ہے صحرا کی راہ میں

پھر یوں ہوا کہ شوق سے کھولی نہ میں نے آنکھ

اک خواب آ گیا تھا مِری خواب گاہ میں

اس بار کتنی دیر یہاں ہوں خبر نہیں

آ تو گیا ہوں پھر سے تِری بارگاہ میں

پھر کار زندگی نے مجھے چھوڑنا نہیں

کچھ دن یہیں گزار لوں اپنی پناہ میں

یاروں نے آ کے جان بچائی مِری کہ میں

خود سے الجھ پڑا تھا یوں ہی خواہ مخواہ میں


عابد ملک

No comments:

Post a Comment