سنو تم لوٹ آؤ نا
میری بے ترتیب سانسیں
میرے دل کی دھڑکنیں
تمہارا نام سن کر
اور بڑھ جاتی ہیں
ویرانے میں کوئی آواز
سکوتِ سمندر میں موجوں کی سرسراہٹ
بے جان جسم میں زندگی کی رمق
غریب کی کُٹیا میں برتنوں کا شور
بیوہ کے بستر کی چرچراہٹ
سنو تم لوٹ آؤ نا
ایک پگلی کا گھورنا
ایک فقیرکا خالی کشکول تکنا
ایک مفلس کو اپنی جوانی دیکھنا
سنو تم لوٹ آؤ نا
وسیم بدایونی
No comments:
Post a Comment